بچپن میں نبوت یا امامت ملنا کس طرح ممکن ہے؟

بچپن میں نبوت یا امامت ملنا کس طرح ممکن ہے؟

جسا کہ ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں: <یَایَحْیَیٰ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا >(1)
”(اے) یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہم نے انھیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کردی“۔
یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان کو مقام نبوت یا امامت بچپن میں ہی مل جائے؟
یہ بات صحیح ہے کہ عام طور پر انسان کی عقل کی ترقی ایک موقع پر ہوتی ہے، لیکن ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیشہ معاشرہ میں کچھ عجیب و غریب قسم کے افراد پائے جاتے ہیں،ان کی عقل کی پرواز بہت زیادہ ہوتی ہے، تو پھر کیا ممانعت ہے کہ خداوندعالم اس وقت کو بعض مصلحت کی بنا پر مختصر کردے اور بعض انسان کے لئے کم مدت میں اس مرحلہ کو طے کرالے، کیونکہ عام طور پر بچہ ایک سال کے بعد بولنا شروع کرتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ولادت کے وقت ہی بولنے لگے اور وہ بھی پُر معنی مطالب جو بڑے بڑے ذہین لوگوں کے الفاظ ہوتے ہیں۔


یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شیعوں کے بعض ائمہ کس طرح بچپن میں مقام امامت تک پہنچ گئے، ان کا یہ اعتراض بے بنیاد ہے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی” علی بن اسباط“ نے روایت کی ہے کہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا (جبکہ امام علیہ السلام کی عمر کم تھی) میں امام کے قد و قامت کو غور سے دیکھ رہا تھا تاکہ ذہن نشین کرلوں اورجب مصر واپس جاؤں تو دوستوں کے لئے آپ کے قدو قامت کو ہو بہو بیان کروں، بالکل اسی وقت جب میں یہ سوچ رہا تھا تو امام علیہ السلام بیٹھ گئے (گویا امام میرے سوال کوسمجھ گئے ) اور میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی بن اسباط! خداوندعالم نے امامت کے سلسلہ میں وہی کیا جونبوت کے بارے میں انجام دیا ہے، کبھی ارشاد ہوتا ہے: <ٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا > ( ہم نے یحییٰ کو بچپن میں نبوت و عقل و درایت عطا کی“ اور کبھی انسان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: <حَتّٰی إذَا بَلَغَ اَشدہُ وَبَلَغَ اٴرْبَعِیْنَ سَنَة>(احقاف/۱۵) (جب انسان بلوغ کامل کی حد تک پہنچا تو چالیس سال کا ہوگیا) ، پس جس طرح خدا کے لئے یہ ممکن ہے کہ انسان کو بچپن ہی میں نبوت و حکمت عطا فرمائے جبکہ وہی چیز انسان کی عقل کو چالیس سال میں مکمل فرمائے۔(2)
مذکورہ آیت ان لوگوں کے لئے ایک دندان شکن جواب ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اعتراض کرتے ہیں کہ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں حضرت علی علیہ السلام نہیں ہیں کیونکہ اس وقت آپ کی عمر ۱۰ سال تھی اور دس سال کے بچہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہے۔
(قارئین کرام!) یہاں پر اس نکتہ کا ذکر بےجانہ ہوگا جیساکہ ہم حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں پڑھتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے زمانہ کے کچھ بچے
ان کے پاس آئے اور کہا: ”اذہب بنا نلعب“( آؤ چلو آپس میں کھیلتے ہیں) تو جناب یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”ما للعب خلقنا“ ( ہم کھیلنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں) اس موقع پر خداوندعالم نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:<وآتَیْنَاہُ الحُکْمَ صَبِیِّاً>(3)
البتہ اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ یہاں پر ”کھیل“ سے مراد بیہودہ اوربے فائدہ کھیل مراد ہے ورنہ اگر کھیل سے کوئی منطقی اور عاقلانہ فا ئد ہ ہو تو اس کا حکم جدا ہے۔(4)


(1)سورہ مریم ، آیت ۱۲
(2) نور الثقلین ،، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵
(3) نور الثقلین ، جلد ۳، صفحہ ۳۲۵(سورہ مریم، آیت ۱۲)
4) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۳، صفحہ

Leave a Reply